Explanation
پہلے دو دور کے جحانات میں ایک رومانیت کا اور دوسرا حقیقت نگاری کا چرچہ رہا اور1947تک انہی دو رجحانات کی بازگشت اردو افسانے میں سنائی دیتی ہے۔ مثلا نیاز فتح پوری، حجاب امتیاز علی، مجنوں گورکھپوری، کے افسانوں میں رومانوی مزاج ملتا ہے۔ جبکہ باقی ترقی پسند افسانہ نگاروں کا مزاج حقیقت نگاری سے ملتا ہے۔ لیکن ان رجحانات میں حقیقت نگاری کا رجحان غالب ہے۔مثلا رشید جہاں، احمد علی اور محمود الظفر کے افسانوں کا مجموعہ ”انگار ے “ جو موجود ہ دور کے انتشار اور ناہموار حالات سے پیدا ہونے والی بغاوت کا آئینہ دار ہے۔ خصوصا 1936ءکے بعد تو چار افسانہ نگاروں جن میں کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو اور عصمت چغتائی کے ہاں حقیقت کے زاوے ے زیادہ مضبوط ہیں۔1947 کے بعد ہمارے افسانے میں فسادات کے موضوع کو بہت تقویت ملی۔اس کے بعد ادوار میں علامتی ،تجریدی،نفسیاتی ،تاریخی رجحان دیکھنے کو ملتے ہیں۔