آلِہَۃ (آلہۃ) لفظ الٰہ (معبود، خدا) کی جمع ہے۔
عربی میں الٰہ کا مطلب "معبود" ہے اور اس کی جمع آلہۃ استعمال ہوتی ہے، جیسے قرآن میں
أَجَعَلَ الآلِهَةَ إِلَٰهًا وَاحِدًا (سورۃ ص، آیت 5)
مکہ مکرمہ ایک پہاڑی علاقہ ہے جہاں زرعی زمین کم تھی، اس لیے غلہ بیرونی علاقوں سے آتا تھا۔
یمامہ ایک زرخیز علاقہ تھا اور مکہ میں زیادہ تر غلہ وہیں سے منگوایا جاتا تھا۔
نبی کریم ﷺ نے "افضلُ الذِّكرِ لا إلهَ إلَّا اللَّهُ" فرمایا، یعنی سب سے افضل ذکر "لا إله إلا الله" (تہلیل) ہے۔
یہ کلمہ توحید کی سب سے بڑی علامت اور ایمان کی بنیاد ہے۔
مسیلمہ کذاب نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ حضور ﷺ کی وفات سے پہلے کیا، مگر اس کے خلاف فیصلہ کن جنگ حضرت ابوبکر رضہ کے دور خلافت میں لڑی گئی۔
اس جھوٹے مدعی کے خلاف جنگِ یمامہ ہوئی، جس میں مسلمان کامیاب ہوئے اور مسیلمہ مارا گیا۔
پہلی وحی: سورۃ العلق (آیات 1 تا 5)
دوسری وحی: سورۃ المدثر (آیات 1 تا 7)
حضرت مصعب بن عمیر مدینہ منورہ کے پہلے معلم تھے اور انہوں نے اسلام کی تعلیم دینے کا آغاز کیا۔
ان کی کوششوں سے مدینہ میں بہت سے لوگ اسلام قبول کر چکے تھے۔
صلح حدیبیہ کے معاہدے کے مطابق مسلمانوں کو مکہ میں تین دن قیام کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔
یہ معاہدہ 6 ہجری میں ہوا تھا اور اس نے مکہ مکرمہ میں مسلمانوں کے داخلے کے لئے ایک سال کے لئے امن قائم کیا تھا۔
شاہ ولی اللّٰہ کا اصل نام قطب الدین احمد ہے۔
شاہ ولی اللہؒ نے سب سے پہلے قرآن مجید کا فارسی میں ترجمہ کیا تاکہ عام لوگ اسے سمجھ سکیں۔
بعد میں ان کے بیٹوں نے اس ترجمے کی بنیاد پر اردو میں بھی ترجمہ کیا۔
مباحثہ سے مراد علم و حکمت سے پرامن انداز میں بات چیت کرنا ہے تاکہ حق واضح ہو جائے۔
قرآن میں بھی دعوتِ حق کے لیے "حکمت اور اچھے انداز سے بحث (مباحثہ)" کی تلقین کی گئی ہے (سورہ نحل: 125)۔
مدینہ میں 3 یہودی قبائل آباد تھے: بنو قینقاع، بنو نضیر، بنو قریظہ
ان قبائل کا مدینہ کی سیاست اور معاہدات میں اہم کردار تھا۔