صفت غنہ کا مطلب ہوتا ہے ناک کی گنگناہٹ، جو کہ حرفِ ن یا م کی ادائیگی میں آتی ہے۔
یہ وہ آواز ہوتی ہے جو ناک کے ذریعے نکالی جاتی ہے، جیسے ن کے ساتھ آواز کی گونج۔
القارعَة میں جب وقف کیا جاتا ہے تو آخر کی تاء مربوطہ (ة) کو ہاء (ه) سے بدل کر پڑھا جاتا ہے، جو وقف بالابدال کہلاتا ہے۔
یہ قاعدہ قرآن کی تلاوت میں رائج ہے کہ تاء مربوطہ پر وقف کرتے ہوئے اس کی آواز "ہ" سے ادا کی جاتی ہے۔
حدر کا مطلب ہوتا ہے تیزی اور روانی سے پڑھنا، خاص طور پر قرآن کی تلاوت میں جہاں تیز رفتاری کے ساتھ صحیح تلفظ کی رعایت رکھی جاتی ہے۔
یہ پڑھنے کا ایک انداز ہوتا ہے جس میں الفاظ کی روانی برقرار رکھی جاتی ہے، مگر اس میں تیز آواز یا جلد بازی نہ ہو۔
NEPOTISM means اقربا پروری، رشتے داروں کی محبت
Favoritism means طرفداری
قطب جد پانچ حروف کا مجموعہ ہے: ق، ط، ب، ج، د
ان حروف کو قلقلہ کہا جاتا ہے، یعنی ان کی ادائیگی میں جھٹکا یا گونج پیدا کی جاتی ہے۔
لہٰذا، "قطب جد" حروفِ قلقلہ کا مجموعہ ہے۔
طواحن ان داڑھوں کو کہتے ہیں جو ضواحک (ہنسنے پر ظاہر ہونے والے دانت) کے بعد آتی ہیں۔
یہ داڑھیں اوپر نیچے اور دائیں بائیں تین تین کی ترتیب میں ہوتی ہیں، اور کھانے کو چبانے میں مدد دیتی ہیں۔
صفات عارضہ وہ صفات ہوتی ہیں جو کبھی کبھار یا کسی خاص حالت میں کسی حرف پر آتی ہیں، جیسے شدہ یا رَخاوت۔
یہ صفات مستقل نہیں ہوتی اور حرف کی اصل حالت میں تبدیلی آتی ہے۔
اخفاء کے حروف کی تعداد پندرہ ہے، جن میں یہ شامل ہیں
ت، ث، ج، د، ذ، ز، س، ش، ص، ض، ط، ظ، ف، ق، ک۔
جب نون ساکن یا تنوین کے بعد ان حروف میں سے کوئی حرف آتا ہے تو وہاں اخفاء کیا جاتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ نون کی آواز ہلکی یا چھپائی جاتی ہے۔
علمِ تجوید کا آغاز نزولِ قرآن کے وقت ہی ہو گیا تھا تاکہ قرآن کی تلاوت درست انداز میں کی جا سکے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود صحابہ کو تجوید کے ساتھ قرآن پڑھایا، اور یہ علم سینہ بہ سینہ منتقل ہوتا رہا۔
مخارج الحروف کی تعداد سترہ ہے، جو مختلف حصوں میں تقسیم ہوتے ہیں جیسے کہ حلق، زبان، دانت وغیرہ۔
ان سترہ مخارج میں ہر حرف کی مخصوص آواز نکالی جاتی ہے، جس سے تلفظ صحیح اور واضح ہوتا ہے۔